دھیمی بارش کی لے میں احوال سناتے رہنا

دھیمی بارش کی لے میں احوال سناتے رہنا

 امریکا میں قیام کے دوران ایک بات میرے لئے ہمیشہ بہت خوشگوار حیرت کا باعث بنی رہتی ہے کہ جو دوست چند برس پہلے اپنے وطن سے امریکا شفٹ ہوئے ہیں یا وہ احباب جن کو وطن سے نکلے ہوئے پانچ دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ ہو گیا ہے اور ان میں سے بیشتر گزشتہ تیس پینتیس برس میں ایک بار بھی پاکستان نہیں گئے لیکن آج بھی جب دو چار دوست کہیں بھی کسی بھی حوالے سے یکجا ہو تے ہیں تو ان کی گفتگو کا موضوع پاکستان ہی ہو تا ہے، بیشتر احباب کا زیادہ پسندیدہ موضوع توخیر سیاست ہی ہے مگر ان کی گفتگو میں اپنے وطن کے لئے ا ن کی دلسوزی نمایاں ہوتی ہے البتہ جس محفل میں پشاور کے احباب ہوں وہاں بات چیت سیاست کے اطراف سے ہوتی ہوئی پشاور کے گزشتہ کل کی بے مثال سماجی زندگی کی طرف مڑ جاتی ہے جب پشاور کی گلی گلیاروں میں وضع دار بزرگ محبتیں بانٹتے نظر آتے تھے، جب ہمسایہ ماں پیو جایا ہوا کرتا تھا، جب پورا محلہ ایک گھر ہوا کر تا تھا جب گھروں کی خواتین گلی میں بیٹھک لگا تی تھیں اور مل جل کر ایک دوسرے کے کام میں ہاتھ بٹاتی تھیں،پکوان کے لئے ساگ چننا ہو کہ چاول سے کنکر نکالنے ہوں یا آلو،اروی یا بینگن چھیلنے ہوں یا پھر لحاف سینے کاعمل ہو سب مل جل کر ہی ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے تھے اور اس دوران کسی گھر سے قہوہ بھی آ جاتا اورپھر قہوہ کے وقفے میں دنیا جہاں کی باتیں کی جاتیں اس عید پر بھی ایسا ہی ایک اکٹھ حسب ِ معمول عامر ثاقب کے گھر تھا مجھے یاد ہے کہ میں نے گزشتہ کسی کالم میں لکھا تھا کہ عید کا یہ روایتی اکٹھ ان کے بڑے بھائی داؤد حسین عابد کی عمرے کی ادائیگی کے لئے جانے کی وجہ سے ان کے گھر ہوا مگر افراز علی سیّدنے مجھے بتایا کہ ہر چھوٹی بڑی عید پرہونے والا یہ اکٹھ ہمیشہ عامر چاچو کے گھر ہی ہوتا ہے، عید کی نماز کے بعد سب وہیں پہنچ جاتے ہیں اور پھر شام ڈھلے تک پورا دن وہیں کھاتے پیتے اور گفتگو میں گزرتاہے اب کے بھی اس اکٹھ میں بھی گفتگو کا مرکز پشاور ہی رہا تاہم زیادہ بات چیت پشاور کے ادبی منظر نامہ پر ہوئی، داؤد حسین عابد کو اگر چہ اب امریکہ میں چار دہائیاں ہو گئی ہیں لیکن وہ پشاور کے احباب سے اور ادبی منظر نامہ سے رابطے میں رہتے ہیں ابھی دو دن پہلے انہوں نے مرحوم ارشاد صدیقی کا ایک بہت عمدہ خاکہ مکمل کیا ہے،ناول اور افسانوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے خاکہ نگاری کا آغاز ستر کی دہائی کے اواخر میں پشاور ہی سے کر لیا تھا جب ینگ تھنکرز فورم، حلقہ فکر و نظر اور حلقہ ارباب ذوق پشاورکے فعال رکن تھے ان کا ڈاکٹر اسماعیل قمر کا خاکہ ”ڈاکٹر پیانو“کو بہت پیرائی ملی تھی امریکہ شفٹ ہونے کے بعد ان کے لکھے ہوئے حاجی سمندر خان سمندر، 
سکواش چیمپین ہاشم خان اور بطور خاص ڈاکٹر صابر کلوری کے خاکے بھی خاصے کے فن پارے ہیں۔اس لئے جب بھی ہم اکٹھے ہوں تو گفتگو پشاور اور ادب کے اطراف میں رہتی ہے، عید کے پہلے ہی دن افراز علی سید اور ان کے دوستوں عمر رانا محمدجنید،محمد سلمان اور سمیر چودھری نے ایک عید ملن کا اہتمام ایک کمیونٹی کلب میں کیا تھا عید کے پہلے دن کی تمام تر مصروفیات کے باوجود بہت بڑی تعداد میں مرد،خواتین اور بچے شریک ہوئے ایک جشن کا سماں تھا، سب دوست اپنے ساتھ اپنے پکوان لائے تھے یہ ایک ون ڈش پارٹی تھی جسے رضا ہمدانی مرحوم ”روزی ئخود“ کہا کرتے تھے لیکن یہاں امریکا میں اسے ”پاٹ لک“ کہا جاتا ہے جس کو میں نے ”قسمت پڑیا“ کا نام دے رکھا ہے، بہر حال کھانے پینے کے ساتھ ساتھ کچھ خواتین بچوں کے لئے طرح طرح کے خوبصورت عید گفٹس بھی لائی تھیں‘ بچے تحائف لے کر بہت خوش تھے اور ادھر اْدھر بھاگتے ہوئے اپنے تحائف سے کھیلنے میں مگن رہے، سمیر چودھری اپنا میوزک سسٹم بھی ساتھ لائے ہوئے تھے سو نغمے بھی الگ سے دھوم مچا رہے تھے، میوزک اور کرسیوں کو دیکھ کر میوزیکل چیئرز کا کھیل تو شروع ہونا تھا جو پہلے بچوں کے مابین ہوا پھر لڑکیاں بالیاں اپنا حصہ ڈالنے لگیں اور آخر میں بزرگ خواتین و حضرات کی باری تھی‘مجھے بھی کہا گیا لیکن چونکہ مجھے کرسی سے کوئی دلچسپی کبھی نہیں رہی اس لئے حصہ نہیں لیا، ماحول خاصا کھلنڈرا ہو چکا تھا لیکن پھر موسیقی کا دور تھا‘افراز علی سید میزبان بنے خود بھی گایا اور دوسرے شرکاء کو بھی دعوت دی بہت سی خواتین نے بڑی مہارت سے مقبول گیت اور غزلیں گائیں جس سے ایک بار پھر محفل میں سنجیدگی لوٹ آئی اور بچے بھی تھک کر اب قدرے آرام سے بیٹھ گئے تھے اس لئے پروگرام کے آخر میں شعر و ادب کی باری تھی۔ ارباب بخت بلند،عمررانا اور کچھ خواتین سمیت دوستوں نے شعر اور نظمیں سنائیں اس سیشن میں مجھے ایک بار کہا گیا تو میں نے بھی اپنا حصہ ڈالا‘یوں سہ پہر ساڑھے پانچ شروع ہو نے والی عید ملن پارٹی ساڑھے بارہ بجے تک جاری رہی، باہر کی دنیا میں عام طور پر تو عید کا پہلا دن ہی بھرپور گزرتا ہے‘ مگر اب کے خوش قسمتی
 سے یہاں عید جمعہ کی دن تھی اس لئے اگلے دو دن بھی چھٹی تھی اس لئے ایک دن داؤد حسین عابد اور ایک دن افراز علی سید کے گھر بھی عید کا رونق میلہ خوب لگا رہا‘بوندا باندی اور ہلکی پھوارکی وجہ سے موسم تینوں دن خوشگوار تھا موسم گرما شروع ہو چکا ہے لیکن کولوراڈو میں ایک دو دن تو تیز دھوپ کی وجہ سے دن تو قدرے گرمی کا احساس رہتا ہے لیکن اگلے ہی دن تیز خنک ہوائیں اور مسلسل بارشوں کی وجہ سے گرمی کا زور شروع ہونے سے پہلے ٹوٹ جاتا ہے مجھے عید کے پانچویں دن حلقہ ارباب ذوق پسکاٹوے کے مدارالمہام اور بہت عمدہ لب و لہجے کے شاعر اور افسانہ نگار ڈاکٹر عامر بیگ کی دعوت پر دو ہفتے کے لئے نیو جرسی جانا تھا چار گھنٹے کے دورانیہ کی یہ فلائیٹ صبح چھے بجے تھی جس کے لئے چار بجے تک ڈینور ائیر پورٹ پہنچنا تھا افراز علی سید نے بیس منٹ میں پہنچا دیا تھا وہ ان کے سارے مراحل میں ساتھ رہے۔ڈینور ائیر پورٹ الگ سے ایک دنیا ہے سکیورٹی سے نکل کر بھی کئی خودکار سیڑھیاں اتر کر اور چڑھ کر تیز رفتار ٹرین لینا پڑتی ہے جو تمام ٹرمینلز اور گیٹس تک جاتی ہے مجھے گیٹ نمبر B31 تک جانا تھا افراز سکیورٹی کے آغازتک ساتھ رہا پھر خدا حافظ اس تاکید کے ساتھ کہا کہ گیٹ پر پہنچتے ہی فجر پڑھ لیجیے کہ کہیں دیر نہ ہو جائے‘ سو وہی کیا B32 خالی پڑا تھا سو پہلے وہاں جاکر فجر پڑھی۔ ابھی بورڈنگ شروع نہیں ہوئی تھی بہت بھیڑ تھی جہاز نے بر وقت اڑان بھری اور نہایت ہموار اور خوشگوارپرواز کے بعد نیو جرسی کے نیو آرک ائیر پورٹ پر لینڈنگ شروع کر دی سیٹ کے سامنے کی سکرین پر زمین سے فاصلہ کم ہونے لگا اور لینڈنگ کا وقت دھیرے دھیرے کم ہوتے ہوئے محض ایک منٹ رہ گیامگر پھر جہاز تیزی سے اوپر اٹھنے لگا اور لینڈنگ کا وقت بڑھتے بڑھتے بیس منٹ تک ہو گیا‘کھڑکی سے باہر دیکھا تو ابر و باران کا طوفان تھا کان پائلٹ کی اناؤنسمنٹ پر لگے رہے کیونکہ عام طور پر بدلتی صورت حال کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا کچھ دیر بعد جہاز نے پھر لینڈنگ شروع کی تو قدرے اطمینان ہوا لیکن جب تک جہاز کے پہیوں نے زمین کو نہیں چھوا تھا سب مسافر چپ ہو گئے تھے جہاز نے ٹیکسی کر نا شروع کیا تو جیسے جہاز کی رونقیں لوٹ آئیں یا شاید یہ محض میرا احساس تھا تاہم جہاز کو اپنے ٹرمینل تک پہنچنے میں چالیس منٹ کی تاخیر ہو چکی تھی نیو آرک کے خوبصورت ائیر پورٹ سے باہر نکلا تو بارش پھوہار میں بدل چکی تھی نیو جرسی کے بھیگے بھیگے موسم میں ڈاکٹر عامر بیگ سے ملاقات ہوئی اور گھر کے لئے روانہ ہوئے تو مجھے سجاد بابر ؔ یاد آ گئے۔
  دھیمی بارش کی لے میں احوال سناتے رہنا
  اس کا ایک جھروکے میں پھر شال سکھاتے رہنا

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *