متفق پھر بھی ہیں ساری دانائیاں ، واپسی کا سفر اتنا آساں نہیں

متفق پھر بھی ہیں ساری دانائیاں ، واپسی کا سفر اتنا آساں نہیں

اب کے موسم کے حوالے سے کچھ زیادہ اچھی خبریں سننے کو نہیں مل رہی تھیں کیونکہ پشاور میں ہاڑ کے مہینے اور بجلی کی آنکھ مچولی نے اپنی حدت اور شدت سے اہل پشاور کو خوب پریشان کیا اس دوراں اگر چہ ایک دو بارچھینٹا بھی پڑا مگر اس سے گرمی اور حبس میں اور اضافہ ہوا میر نے ٹھیک ہی تو کہا تھا
 متصل روتے ہی رہیے تو بجھے آتش ِ دل
 ایک دو آنسو تو اور آگ لگا جاتے ہیں 
 شنید ہے کہ اب موسم قدرے مہربان ہوا ہے موسم گرما کامختلف ملکوں کے لئے اپنا الگ ٹائم ٹیبل ہے یہی مئی جون جولائی کے مہینے بہت سے ممالک میں خاصا سرد ہو تے ہیں جب کہ ہمارے ہاں تو بقول اکبر الہ آبادی
 پڑ جائیں میرے جسم پہ لاکھ آبلے اکبر
 پڑھ کر جو کوئی پھونک دے اپریل مئی جون 
 ان مہینوں میں امریکا کے کچھ علاقوں میں تو موسم معتدل ہوتا ہے لیکن کچھ ریاستیںموسم گرما میں واقعی تپ رہی ہو تی ہیں ‘ایریزونا میں تو زیادہ تر درجہ حرارت پچاس سنٹی گریڈ سے بھی اوپرہی رہتا ہے اور وہ جو کہا جاتا ہے کہ فینکس کی سڑک پر اگر انڈا توڑ کرگرایا جائے تو آناََ فاناََ پک جاتا ہے تو یہ بات کچھ زیادہ غلط نہیں ہے صحرائے ایریزونا کا شہر فینکس ایک منصوبہ کے تحت بنایا اور بسایا گیا شہر ہے‘ ایک ایسا شہر جس کے در و دیوار پر خوبصورت آرٹ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے‘ گرم ریاستوں میں ٹیکساس اور کیلیفورنیا بھی شامل ہیں بلکہ کیلیفورنیا میں تو چند برس پہلے درجہ حرارت چھپن درجہ سنٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا، ابھی جب جون کے مہینے میں مجھے چند ہفتے نیو جرسی اور نیو یارک میں گزارنے کا موقع ملا تو وہاں کے رہنے والوں کے لئے جب ایک آدھ دن دھوپ میں حدت بڑھ گئی تھی تو مجھے سلیم صدیقی کا فون آیا کہ” بادشاہ جی باہر مت نکلناآج اکوڑہ خٹک والی گرمی ہے“ یہ اور بات کہ اس وقت میں ڈاکٹر عامر بیگ کے گھرسے مسجد کی طرف جا رہا تھا اور میرے لئے یہ موسم معتدل تھا، سلیم صدیقی سے میری ملاقات لگ بھگ ساٹھ برس بعد حلقہ ارباب ذوق پسکاٹ وے کی میری نئی کتاب خیال ِ خاطر ِ احباب کی تقریب رونمائی میں ہوئی وہ کئی دہائیوں سے امریکا میں ہیں اس لئے انہیں پشاور کی گرمی کا اندازہ نہیں ہے کو لو راڈو کے شہر ڈینور میں بھی جب افراز علی سید گرمی کی بات کرتے ہیں میں باہر دھوپ میں بیٹھا ہوتا ہوں لیکن ایسا کوئی ہیوسٹن یا کیلیفورنیا میں نہیں کر سکتا نیو جرسی سے جس دن مجھے اور ڈاکٹر عامر بیگ کو دوست مہرباں عتیق صدیقی سے ملنے چار گھنٹے کی ڈرائیو سے بینگ ہیمٹن جانا تھا اس دن ہمیشہ کی طرح موسم بہت مہربان تھا امریکہ کی سڑکوں پر ڈرائیور کو اس حوالے سے بھی بہت الرٹ رہنا پڑتا ہے کہ ذرا سی چوک سے واپس راہ راست پر آتے آتے سفر بہت طویل ہو جاتا ہے اور ہم دونوںشعر و ادب کے مباحث میں مگن تھے کہ اچانک ڈاکٹر عامر بیگ نے انکشاف کیا کہ ہم نے غلط ایگزٹ لے لیا ہے اور اب واپس آنے کےلئے ہمیں ہائی وے کو چھوڑ کر مضافاتی علاقوں سے ہو کر جا نا ہو گا اور جب گوگل نیویگیشن ہمیں متبادل راستے کی طرف لے گئی تو اس لمحہ کو ہم نے بہت دعا دی جب ہم بھٹک گئے تھے کیونکہ یہ گھنے درختوں سے گھرا ہوا سرسبز و شاداب علاقہ بہت خوبصورت تھا پہلی بار راہ ِ راست سے بھٹکنا اچھا لگا امریکا کے دیہات اور قصبات خوبصورت تو بہت ہیں مگر برطانیہ کے مضافاتی علاقوں کی طرح نہیں ، لیکن یہ علاقہ دیکھ کر میں ہی نہیں ڈاکٹر عامر بیگ بھی اس علاقہ کی خوبصورتی کا گرویدہ ہو گیا تھا، ایسے میں بوندا باندی اور ہلکی پھوار نے بھی سرسبز مناظر کو انگڑائی لے کر بیدار ہونے کی خوب ترغیب دی، اب گاڑی کی رفتار کم کر دی گئی تھی اور ویڈیوز بھی ساتھ ساتھ بنتی رہیں پھر شعر و ادب کی گفتگو کو مو¿خر کر کے موسیقی پر بات شروع ہو گئی ادھر گھر سے نکلتے وقت عتیق صدیقی کو بتا دیاتھا چونکہ گزشتہ کئی برسوں سے عتیق صدیقی بینگ ہیمٹن سے نیو جرسی اور نیو یارک سینکڑوں بار آتے جاتے رہتے ہیں تو انہیں یہ راستے ازبر ہیں اس لئے کہنے لگے کہ آپ پانچ بجے تک ان شاءاللہ پہنچ جائیں گے مگر اس ایڈونچر کی وجہ سے ہم قدرے تاخیر کے ساتھ پہنچے، ہمیشہ کی طرح عتیق صدیقی سے مل کر بہت اچھا لگا، کچھ ہی دن قبل وہ بھا بھی کے ہمراہ عمرے کی سعادت حاصل کر کے لوٹے تھے ، گھر پہنچے تو عتیق صدیقی کے برخوردار اعزاز صدیقی کی فیملی اور بہت دنوں کے بعد بٹیا جی سے مل کر سرشاری کا احساس کئی گنا بڑھ گیا، پر تکلف عشائیہ اور خوش ذائقہ قہوے پر گفتگو ادب سے ہوتی ہوئی حالات حاضرہ کی طرف مڑ گئی بلکہ موڑ دی گئی کیونکہ ڈاکٹر عامر بیگ نے مجھے راستے ہی میں کہہ دیا تھا کہ عتیق صدیقی چونکہ بساط عالم پر کھیلی جانے والی ساری سرگرمیوں پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں اس لئے ان سے عالمی سطح پر ہونے والے تازہ واقعات کے حوالے سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں گے۔ اور واقعی عتیق صدیقی کے تجزیوں اور سیر حاصل گفتگو نے بہت سی گتھیاں سلجھا دیں ۔ دوسرے دن ہم بینگ ہمٹن سے دو ڈھائی گھنٹے کی دوری پر واقع ٹاو¿ن پہنچے جو اپنی قدرتی آبشاروں کے لئے مشہور ہے، میں تو بس دامن کوہ میں گرنے والی آبشار کے پاس رکنا اور اس سے کچھ باتیں کرنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر دوستوں کا خیال تھا ذرا اوپر جا کر اس آبشار کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ چھونے کا تجربہ بھی کر لیا جائے، میرے لئے پندرہ بیس سیڑھیاں چڑھنا بھی کبھی خوشگوار تجربہ نہیں ہوتا اور یہ تو ساٹھ ستر سیڑھیاں تھیں مگر خود کو آمادہ کر ہی لیا یہ اور بات کہ سہانے موسم ،سیاحوں کی بھیڑ اور خوبصورت آبشاروں اورحسن کے حوالے سے فطرت کی فیاضی نے ذرا بھی تھکن کا احساس نہ ہونے دیا میں اور عتیق صدیقی بس یہیں سے واپس جانے کا ارادہ رکھتے تھے مگر ڈاکٹر عامر بیگ کا خیال تھا کہ اس سے آگے کے ہوش ربامناظر اور جادوئی آبشاریں دیکھنے کے لئے قدرے اوپر جاتے ہیں۔ پھر ہم نے کب اس طرف آنا ہو گا، عتیق صدیقی کا تو اپنا علاقہ تھا وہ کبھی کسی بھی وقت آسکتے تھے اس لئے وہ تو پہلی آبشار کے پاس ہی رک گئے اور میں نے ہمت مجتمع کی کہ چلیں دس بیس سیڑھیاں اور سہی مگر ایسا نہ ہوا ہر قدم بلکہ ہر سیڑھی ایک نیا اور پہلے زیادہ خوبصورت نظارہ دکھانے لگی تصویریں بناتے ہوئے بلکہ ڈاکٹر عامر بیگ تو فیس بک پر وقفے وقفے سے لائیو ویڈیو بھی اپنی کمنٹری کے ساتھ اپ لوڈ کرتے رہے ہم ذرا سا اور اوپر کہتے کہتے ٹاپ پر پہنچ گئے اور جب عامر بیگ نے بتایا کہ ہم دامن کوہ سے یہاں تک آٹھ سو تیس سیڑھیاں چڑھ آئے ہیں تو مجھے بورڈ دیکھنے کے باوجود یقین نہیں آ رہا تھا ، دراصل راستے میں جہاں سینکڑوں کی تعداد میں چھوٹے بچے اور نوجوان لڑکے لڑکیاں اور ادھیڑ عمر کے مرد اور خواتین کی بہت بڑی تعداد تھی وہاں کم کم مگر ایسے بوڑھے جوڑے بھی تھے جن کی عمریں کسی طور بھی اسّی سال سے کم نہ تھیں جو ایک دوسرے کے سہارے اوپر چڑھ رہے تھے انہیں دیکھ کرپھر مجھے اس سوچ سے بھی ذرا پریشانی نہیں ہوئی کہ ابھی اتنی ہی سیڑھیاں ہمیں واپس بھی اترنا ہے حالانکہ سجاد بابر کی ایک خوبصورت غزل مسلسل کانوں میں سرگوشیاں کر رہی تھی۔
 ا±س کنارے دیاجل رہا ہے، کوئی ایک پل بھی ہے اور ایک کشتی بھی ہے 
 متفق پھر بھی ہیں ساری دانائیاں ، واپسی کا سفر اتنا آساں نہیں۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *