اس تماشے میں الٹ جاتی ہیں اکثر کشتیاں

اس تماشے میں الٹ جاتی ہیں اکثر کشتیاں

امریکی زندگی کی ساری چکاچوند اور دلکشی کے پیچھے وہ سسٹم کار فرما ہے جو اپنے باسیوں کو ایک بہترین زندگی گزارنے کی ساری سہولیات فراہم کرتا ہے یوں سمجھ لیجئے کہ کسی بھی لاکھوں اور ہزاروں کی آبادی والے بڑے سے بڑے شہر میں صحت‘ تعلیم اور زندگی کے سارے شعبوں کے حوالے سے جو وسائل اور آسانیاں ہر شخص کو دستیاب ہیں وہ ساری آسانیاں ان شعبوں میں ہر اس شخص کو بھی یکساں طور پر میسر ہیں جو سو پچاس گھروں پر مشتمل قصبات کا باسی ہے پھر اس سسٹم کے قواعد و ضوابط نہ صرف بہت سخت ہیں بلکہ ان پر عمل درآمد کرنے کے سلسلے میں ذرا سی بھی رو رعایت سے کام نہیں لیا جاتا یقینا ذرا سی غلطی یا چوک کی کڑی سے کڑی سزا کے خوف نے پہلے پہل یہاں کے رہنے والوں کو محتاط بنادیا ہو گا پھروقت کے ساتھ ساتھ ان کی ایسی غیر محسوس طر یقے سے تربیت ہو تی گئی کہ ان کو معلوم ہو گیا کہ کسی بھی کام یا حرکت کو قابل ِ تعزیر بنانے کے پیچھے کوئی نہ کوئی منطق کار فرما ہے‘ جیسے کسی بھی کئی لین والی کشادہ سڑک پر اگر کوئی سکول بس کسی بچے کو اتارنے یا چڑھانے کیلئے ایک سائیڈ پر رک جاتی ہے تو بس کے پیچھے آنے والی ساری ٹریفک سکول بس سے ایک فاصلہ پر رک جاتی ہے گھنی آبادی والی بعض دورویہ سڑکوں پر تو دوسری سمت سے آنیوالی ٹریفک بھی رک جاتی ہے حالانکہ سکول بس شاہراہ کے کنارے پر ہوتی ہے اور بہت کشادہ سڑک کے سارے لین کھلے پڑے ہوتے ہیں مگر کوئی بھی ایک سائیڈ پر رکی ہوئی بس سے سبقت (اوور ٹیک) لے جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا کچھ عرصہ پہلے ایسی ہی صورت حال میں جب افراز علی سیّدنے گاڑی روک لی تھی تو میرے استفسار پر اس نے بتایاکہ بچوں کی ساری حرکتیں غیر متوقع اور ناقابل فہم ہوتی ہیں اس لئے عین ممکن ہے کہ وہ سکول بس سے چڑھتے یا اترتے وقت کس بھی سمت اچانک دوڑ پڑیں اور خدانخواستہ حادثہ کا شکار ہو جائے‘ بس یہی مفروضہ قاعدہ قرار پا چکا ہے پھر ہر شاہراہ پر سپیڈ کا تعین تو خیر ہمیشہ سے ہوتا ہے مگر اب کچھ عرصہ سے برقی بورڈ نصب کر دئیے گئے ہیں جو ہر گزرتی گاڑی کو نہ صرف یہ مقررہ سپیڈ بتاتے ہیں بلکہ یہ بھی کہ وہ اس سپیڈ سے کس حد تک تجاوز کر رہے ہیں یعنی اگر سپیڈ تیس میل فی گھنٹہ ہو نا چاہئے تو برقی بوڑد پر گزرنے والی گاڑی کی سپیڈ بھی دکھائی دیتی ہے کہ وہ چونتیس یا تینتیس ہے اس لئے سپیڈ کم کر دی جاتی ہے‘ اسی طرح جن شاہراؤں پر ہرن کے آنے کے امکانات ہوں وہاں ہرن کی تصویر والے بورڈ لگے ہوتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ گاڑی کی رفتار کنٹرول میں 
رکھیں تاکہ ان کی مومنٹس سے کوئی حادثہ نہ ہو جائے گویا جانوروں کو بھی جاندار سمجھ کر ان کی حفاظت کیلئے بھی ہدایات دی جاتی ہیں یہ صرف ٹریفک کی مثال دے رہا ہوں ورنہ یہ قوانین ہر جگہ کار فرما ہیں جن تالابوں اور رواں پانیوں کے علاقہ میں تربیت یافتہ محافظ نہ ہوں وہاں ان کے نزدیک کسی کو جانے بھی نہیں دیا جاتااس کے برعکس وطن عزیز کے تفریحی مقامات اور خصوصاً آبی گزرگاہوں کے اطراف میں ہر سال بھری کشتیاں ڈوبنے اور نہانے والوں کے مسلسل حادثات کے باوجود کوئی قاعدہ قانون بنانے یا محافظ رکھنے کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی گئی‘ سردریاب‘سوات‘ دریائے کابل اور کنڈ کے مقام پر ایک زمانے میں تو ہر سال گنجائش سے زیادہ سیاح بٹھانے کی وجہ سے کشتی کے ڈوبنے کے واقعات ایک تواتر سے ہوتے رہے ہیں مگر ہر بار 
محض ایک دو بیانات کا اعلان کر کے حادثے کو بھلا دیا جاتا ہے کبھی کہا تھا کہ
مجھ سے عبرت کوئی نہیں لیتا
رائیگاں ایک سانحہ ہوں میں 
لیکن اس کے برعکس باہر کی دنیا میں ہر ضابطے‘ قاعدے یا قانون کے پیچھے کوئی نہ کوئی واقعہ‘سانحہ یا کوئی بھول چوک ہوتی ہے‘ جس طرح اگر کسی سٹور یا ریستوران میں فرش پر کسی سے ذرا سا پانی گر جائے اور صاف کرنے کے باوجود اگرفرش گیلا ہو تا فوراً پہلے سے موجود ایک زرد رنگ کا بورڈ اس پر رکھا جاتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے کہ ”فرش گیلا ہے احتیاط کیجئے گا“ اس کے پیچھے کہیں پر ہونے والا کوئی حادثہ ضرورہوا ہو گا کہ گیلے فرش پر سے پھسلنے والے شخص نے زخمی ہونے کی صورت میں اس سٹور یا ریستوران کے مالک کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ہو گا جس پر حادثے کا شکار ہونے والے شخص کے علاج معالجہ کے سارے خرچے کے علاوہ ایک بڑی رقم بطور جرمانہ بھی بھرنا پڑی ہوگی اور یہ بھی ممکن ہے کہ حادثہ سنگین ہونے کی صورت میں اس کے سٹور یا ریستوران کو بند بھی کر دیا گیا ہو کیونکہ انسان کو تکلیف دینے کے حوالے سے یہ معاشرہ 
ذرا سی رعایت بھی دینے کو تیار نہیں (کاش باقیماندہ دنیا کے انسانوں کے حوالے سے بھی یہ کلیہ قاعدہ لاگو کیا جاسکے) اس لئے پبلک مقامات پر اب احتیاط کی تلقین ایک طرح سے ضابطہ قرار پاچکی ہے‘ اسی طرح ہوائی اڈوں پر جہاں متحرک پٹی پر مسافروں کا سامان آ رہا ہوتا ہے وہاں بھی اس پٹی کے متوازی کچھ ائیر پورٹس پر ایک اور پٹی بھی چل رہی ہوتی ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ ایک ہی کمپنی کے اٹیچی کیس یا کیری آن بکسے ایک طرح کے اور ایک رنگ کے ہوتے ہیں اس لئے بہت احتیاط کیجئے ظاہر ہے کبھی ایک آدھ بار کوئی مسافر غلطی سے کسی کا بکس لے گیاہو گا اور اسے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہو گا تو اس کے بعد اس کا یہ حل ڈھونڈا گیا اسی طرح ائیر پورٹ پر مختلف ٹرمینل تک لے جانے والی تیز رفتار ٹرین کے خود کار دروازے بند ہونے اور کھلنے سے پہلے بھاری آواز میں اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ احتیاط کیجئے کہ دروازے کے پائیدان سے ٹھوکر نہ لگ جائے‘ گویا چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے تا کہ کسی بھی شہری کو بڑی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے میں کوئی بارہ برس پہلے واشنگٹن ائیر پورٹ پر سکیورٹی کے ٹرے سے اپنا لیپ ٹاپ‘ بیگ اور جیکٹ وغیرہ اٹھاتے ہوئے اپنا قیمتی کیمرہ بھول آیا تھا جو مجھے جہاز کے ٹیک آف کے بعد یاد آیا مگر پھر کیا ہو سکتا تھا پھر کئی گھنٹوں کی طویل دورانیہ کی پرواز کے بعد ڈینور پہنچا دوسرے دن افراز کو بتایا کہ کیمرہ کہیں بھول آیا ہوں اور قلق یہ تھا کہ اس میں سفر کے دوران لی ہوئی کئی تصاویر تھیں۔ افراز نے کہا کوشش کرتے ہیں‘ اس نے اسی وقت واشنگٹن ائیر پورٹ فون کیا پھر نشانی کیلئے دو تین ای میل کا تبادلہ ہوا اور چار دن کے بعد ڈینور میں افراز کے گھر کے ایڈریس پر مجھے میرا کیمرہ واپس مل گیاسو ایسے شاندار سسٹم کی وجہ سے امریکا جانے والا کوئی بھی شخص اپنی مٹی کیلئے اپنی جنم بھومی کیلئے تمام تر جذباتی تڑپ رکھنے کے باوجود واپسی کیلئے کبھی تیار نہیں ہوتا اس پر مستزاد یہ بھی کہ وطن عزیز میں آئے دن کوئی ایسا سانحہ رونماہو جاتا ہے جو خون کے آنسو رلانے کے ساتھ ساتھ نظام کی خرابیوں پر بھی سوال اٹھانے لگتا ہے ویسے بھی بڑے سے بڑاحادثہ بھی سارے بڑوں کی طرف سے دو ایک بیانات کے بعد بھلا دیا جاتا ہے اور اس کا کیا کیا جائے کہ کار ادب کو شغل بیکاراں سمجھنے والے اس ضعیف اور بے ذوق معاشرہ میں کوئی شاعر کی بھی نہیں سنتا ورنہ سوات سانحہ سے کئی دہائیاں پہلے احمد فراز متنبہ کر چکا تھا
اس تماشے میں الٹ جاتی ہیں اکثر کشتیاں 
 ڈوبنے والوں کو زیر ِ آب مت دیکھا کرو

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *