پھر ایک روز خود اسے بے نور کردیا

وہ جو کچھ دن پہلے تک کہا جا رہا تھا کہ اب کے جاڑے کی رت میں وہ دم خم نہیں جو کبھی ہوا کرتا تھا مگر اب لگتا ہے اُسی بات کو جاڑے نے اپنے لئے ایک چیلنج سمجھ لیا اور اپنی صبحوں اور شاموں کوایسا کہر آلود کر دیا کہ یار لوگ ٹھٹھر کر رہ گئے‘ اور دو دنوں سے دھند کا عالم یہ ہوتا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا‘ سردی کی اس متوقع لہر کے پیش نظر شہر پشاور میں بہت سے پروگراموں کو نئے سرے سے ترتیب دیا جا رہا ہے‘ لیکن جاب پر جانے والوں کو تو بہر حال جانا ہوتا ہے ‘تقریبات سماجی ہوں ثقافتی یا پھر ادبی جو پہلے سے طے ہو چکی ہیں وہ تو ہو رہی ہیں یہ اور بات کہ اب ان میں حاضری بہت کم ہونے لگی ہے۔اس کی ایک وجہ تو یقینا سردی رہی ہو گی مگر اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اب لوگوں کی ترجیحات زیادہ تر ان کے اپنے ارد گرد ہی رہتی ہیں وہ جو دوسروں کی خوشی کے لئے اپنی مصروفیات کو ترک کر دینے کی تعلیم پرکھوں نے سکھائی تھی وہ اب بھلائی جا چکی ہے‘ کہا جاتا ہے کہ بڑے شہروں کی نسبت چھوٹے شہروں کے رہنے والوں میں ابھی مروت‘لحاظ اور رواداری کے آداب اور آثار باقی ہیں لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے اب چھوٹے شہر وں اور قصبات میں بھی یار لوگوں کی ترجیحات بھی پہلی سی نہیں رہیں‘ اس کی وجہ مصروفیات بتائی جاتی ہیں‘ میں حیران ہوتا ہوں کہ باہر کی دنیا تو بہت ہی مصروف ہے اور آدھے سے زیادہ لوگوں کی زندگی گھر اور جاب کے درمیان ہی کو لہو کے بیل کی طرح کٹ جاتی ہے‘ ایسے کتنے ہی لوگوں کو میں جانتا ہوں جو اپنے شہروں سے باہر ہی نہیں نکلے‘ مان لیجئے کہ میکانیکی زندگی جئے جا رہے ہیں‘ لیکن وہاں کی سماجی‘ سیاسی اور ادبی تقریبات میںلوگ بہت دلچسپی سے حصہ لیتے ہیں ‘ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران دسمبر کے موسم میں نیویارک کی رگوں میں خون جمانے والے یخ بستہ موسموں اور خصوصاً برفباری کے دوران بھی میں نے دیکھا ہے کہ سولہ دسمبر کو اے پی ایس پشاور کے دلدوز سانحہ کے حوالے سے ایک بڑی تعداد میں جوان‘ معمر‘ خواتین اور بچے مین ہٹن اور جیکسن ہائٹس میں اکٹھے ہوتے 
اور بچوں کی یاد میں شمعیں جلاتے ہیں‘امریکا کے بیشتر علاقوں میں جاڑے کی رت میں سرمائی طوفانوں اور برف باری کی وجہ سے درجہ حرارت نقطہ¿ انجماد سے کہیں بہت نیچے رہتا ہے تاہم وہاں معمولات زندگی میں زیادہ فرق نہیں آتا‘بعض علاقوں میں تو صورت حال بہت عمدہ رہتی ہے خصوصاً ٹیکساس کے بڑے شہر ہیوسٹن میںغیر متوقع اور معمول سے زیادہ بارشیں نہ ہوں تو نسبتاً موسم اچھا ہی رہتا ہے‘ یہ شہر نیویاک اور لاس اینجلس کی طرح ایک بڑا ادبی مرکز بھی ہے اور کم و بیش سارا سال ادبی اور ثقافتی تقریبات 
ہوتی رہتی ہیں مجھے بارہا ان میں شرکت کا موقع ملا ہے خصوصاَ فیاض احمد خان رامپوری کی تنظیمَ تقدیس ادب انٹر نیشنل کی ادبی اور ثقافتی تقریبات میں تو پنڈال بھرا رہتا ہے اب کے ایک طرحدار شاعر ادیب اور عمدہ نظامت کار شاہ غزالی کے دوسرے شعری مجموعہ ” چراغ ِ عشق “ کی جب رونمائی کا ڈول ڈالا گیا جس کے لئے پاکستان سے عباس تابش اور خالد عرفان بھی آئے ہوئے تھے تو میں بھی بطور صدر ِ محفل مدعو تھا‘ اس شام بھی ہال بھرا ہوا تھا‘ کتاب پر بہت عمدہ گفتگو ہوئی‘اور رونمائی کے بعدمحفل مشاعرہ نے سماں باندھ دیا تھا‘ ہیوسٹن اچھا شعر کہنے والے عمدہ اور نفیس شعرا سے بھرا ہوا ہے‘اب کے تقدیس ادب انٹرنیشنل کی محفل مشاعرہ میںمیں دوستان عزیز باسط جلیلی اور غضنفر ہاشمی کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی‘ اس رات بہت اچھا شعر سننے کو ملا‘ عباس تابش 
اور خالد عرفان تو خیر آل ٹائم فیورٹ ہیں لیکن شاہ غزالی سمیت مقامی شعرا نے بھی خوب رنگ جمایا ‘ ان میں ادب دوست مرزا عنایت اشرف (عیش بھائی) کے برادر بزرگ ریڈیو پاکستان سے ایک زمانے تک جڑے رہنے والے بہت اچھے شاعر مرزا عقیل اشرف بھی شامل تھے‘ وہ جب بھی ملتے ہیں ریڈیو پاکستان کے سنہرے دور کی بہت عمدہ یادداشتیں شیئر کرتے ہیں‘ بات سرد موسم سے ہیوسٹن کے معتدل موسم اور شاہ غزالی کے نئے شعری مجموعہ تک جا پہنچی سچی بات تو یہی ہے کہ‘ جن تخلیقی لمحوں میں شعر دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو اعصاب کا کھچاو¿جان لیوا ہوتا ہے دل کی دھڑکنیںبے ترتیب ہو جاتی ہیں لیکن جب شعر روٹھ جاتا ہے اور دل خالی خالی سا رہ جاتا ہے تو رائیگانی کا احساس امر بیل کی طرح جسم و جاں سے لپٹ جاتا ہے اوریہ وہی گویم مشکل وگر نہ گوم مشکل والی کیفیت ہے۔ شعر کا نیا آدمی آج اساتذہ کی نسبت ایک مختلف حسیات کے زمانے میں سانس لے رہا ہے‘ جہاں نجی واردات کو اجتماعی شعور سے جوڑنے کی راہ میں کئی عفریت منہ کھولے کھڑے نظر آتے ہیں ‘ پھر بھی کہیں کہیں سے شاہ غزالی کی طرح ایک توانا اور دل خوشکن آواز سنائی دیتی ہے تو ’ ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے ‘ پر یقین پختہ ہو جاتا ہے ‘ یوں بھی لکیروں اور لفظوں کا نبض شناس شاہ غزالی اس حقیقت کو جان چکا ہے کہ اپنے لوگوں سے بات کرنے کے لئے نہ اپنے شعر کو فلسفہ کا جامہ اوڑھانا ہے نہ لکیروں کو ایسا گورکھ دھندا بنانا ہے کہ جسے ڈی کوڈ کرتے کرتے صدیاں ہلکان ہو جائیں کہتے ہیں کہ نئے تخلیق کار میں پرانے تخلیق کار کو بولنا چاہئے ‘ گویا روایت کے تسلسل کو نئی حسیات میں ڈھالنے کی ہنر کاری ہی شعر کو جلا بخشتی ہے شاہ غزالی کے نئے شعری مجموعہ ’چراغ عشق‘ میں کئی شعر دیر تک اپنے سحر سے نکلنے نہیں دیتے تو اس تناظر میں مجھے شاہ غزالی کا کمال سہولت سے کہا ہوا یہ شعر ہمیشہ سرشار کر دیتا ہے۔
پہلے تو اس نے مجھ میں جلایا چراغ ِ عشق
پھر ایک روز خود اسے بے نور کر دیا قاصد کے آتے آتے خط ایک اور لکھ رکھوں 
 میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں 
جب کہ دوسری طرف آتش جیسے شعرا ء بھی مو جود تھے جنہیں یہ سہولت بھی دستیاب نہ تھی مگر چونکہ آتش شاعر تھے اس لئے اس کمی یا محرومی کو بھی وہ مثبت طور لیتے اور بیان کرتے ہیں، 
 پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا 
 زبان ِ غیر سے کیا شرح ِ آرزو کرتے
 اس زمانے میں قاصد کو بھیجنا اور اس کی واپسی کا انتظار کرنا ایک دل خوشکن سرگرمی ہوا کرتا تھا،اب ہم ایک ایسے زمانے تک آ پہنچے کہ پیغام کا بھیجنا اور وصول کرنا محض ایک کلک کی دوری پر رہ گیا ہے، اب سرکاری خط و کتابت بھلے سے ای میل پر ہو، نجی معاملات کے لئے فیس بک میسنجر اور وٹس ایپ کے ”قا صد“ شب وروز اس خدمت کے لئے مستعد اور تیار ہیں، اور یہ سہولت کم و بیش مفت موجود ہے، البتہ اس کے لئے ذرا احتیاط کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ اب براہ راست پیغام رسانی کے ساتھ ساتھ ہم خیال احباب کے گروپس بن گئے ہیں اور بے خیالی میں کبھی کبھی انتہائی ذاتی نوعیت کا میسج کسی گروپ میں شئیر ہو جاتا ہے، اور وہی فراز والی صورت حال بن جاتی ہے کہ 
 ملیں جب ان سے تو مبہم سی گفتگو کرنا
 پھر اپنے آپ سے سو سو وضاحتیں کرنی 
 گزشتہ شب ایسا ہی ہوا کہ میں ایک آن لائن مشاعرہ میں تھا کہ ایک معروف ادبی گروپ ”گزرگاہ ِ خیال“ سے ایک فون آیا، مگر میں مشاعرہ کی وجہ سے فون نہ لے سکا، مشاعرہ کے بعد میں نے اس گروپ میں وائس نوٹ کیا کہ کسی دوست کا فون آیا تھا میں اب فری ہوں وہ کال کر سکتا ہے، تو قطر سے محبی ڈاکٹر فیصل حنیف کا جواب آیا کہ ”جناب وہ انڈیا سے معروف شاعر جلیل نظامی مجھے کال کرنا چاہتے تھے جو غلطی سے کال گروپ میں چلی گئی“ اب ایک لمحہ کو سوچئے کہ جب رات گئے (پاکستان میں) بیک وقت بیسیوں دوستوں کے فون بجے ہوں گے تو کیا سماں ہو گا، لیکن اس سب کچھ کے باوجود خط کا رومینس اپنی جگہ باقی ہے، اور قاصد ہرکار ے اب ایک نظام کے تحت کام کرتے ہیں اور ڈاکیہ یا پوسٹ مین کہلاتے ہیں، اور پوسٹ آفس میں خطوں کے ساتھ ساتھ تحفے تحائف اور کتابوں سے ضروریات زندگی کی ترسیل کا سلسلہ بھی جاری ہے ہر چند اب تیز رفتار کورئیر بھی شہر میں یہی کام نسبتاً بہتر انداز میں انجام دے رہے ہیں لیکن ان کے ریٹس اتنے زیادہ ہیں کہ لا محالہ پوسٹ آفس کی سروسز سے رجوع کرنا پڑتا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی سروسز گزشتہ کل کی نسبت اب بہت بہتر ہیں، خصوصا ًبیرون ملک بھیجے جانے والے پارسل جو کتب اور دیگر اشیاء پر مبنی ہو تے ہیں جو وقت تو بہت لیتے ہیں لیکن محفوظ طریقہ سے پہنچ جاتے ہیں اور نئے دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان میں ”ٹریکنگ“ کی سہولت سمیت معمولات کو بہتر بنا لیا گیا ہے، کوئی سات دن قبل مجھے بھی اس سہولت کی ضرورت آن پڑی اور میں سرد موسم میں کشاں کشاں پشاور کے جنرل پوسٹ آفس تک جا پہنچا، مگر وہاں جا کر معلوم ہوا کہ نیٹ میں خرابی کی بناء پر فی الحال ہم معذرت خواہ ہیں، البتہ کل صبح ۹ بجے کے بعد جب نیٹ بحال ہو جائے گا، تو آپ آجائیں، میں نے کہا کیا خبر صبح ۹ بجے تک سسٹم بحال نہ ہو تو آپ فون نمبر دے دیں، تا کہ معلوم کر کے پھر آجاؤں، نمبر مل گیا مگر دوسرے دن فون کرنے پر پتہ چلا کہ ابھی سسٹم بحال نہیں ہوا۔ پھر اس دن دوبار رابطہ بھی بے کار گیا۔ با ت پھر دوسری، تیسری اور چوتھی صبح  تک گئی مگرجواب نفی میں ملا، بالآخر مایوس ہو کر متبادل انتظام کرنا پڑا۔
اب کہہ نہیں سکتا کہ شہر کے اتنے بڑے اور معتبر ادارے کے سسٹم میں ایسی کیا خرابی واقع ہو چکی ہے، جو آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کے عروج کے اس دور میں بھی بگاڑ گھنٹوں دنوں سے شروع ہو کر ہفتوں تک پھیل گیا ہے، جتنے دنوں میں پارسل کو پہنچنا تھا اتنے دن آج اورکل میں گزر گئے، اس سے تو وہی دور بہتر تھا جب قاصد کے آنے کا انتظار رہتا اور پھر کوئی داغ دہلوی قاصد کو عزت و احترام سے پاس بٹھا کر کہا کرتا تھا۔
 اب ذرا تفصیل سے اے قاصد ِ خوش رَو بتا 
 پہلے اُس نے کیا کہا، پھر کیا کہا، پھر کیا کہا؟

Scroll to Top