بس ایک رزق کا منظر نظر میں رکھا جائے

بس ایک رزق کا منظر نظر میں رکھا جائے

اب مجھے ٹھیک سے یاد تو نہیں کہ کتنے مہ و سال کے بعد میں پشاور صدر گیا تھا لیکن  میں گزشتہ شام پشاور صدر میں گھومتے ہوئے بہت خوشی بلکہ سرشاری محسوس کر رہا تھا، ویسے تو پشاور صدر سے بارہا گزرنے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے، کہیں کسی تقریب کے لئے جاتے یا وہاں سے واپس آتے ہوئے یا پھر شاپنگ کے لئے فیملی کا ساتھ دیتے ہوئے بھی پشاور صدر کی سیر ہو جاتی ہے یہ اور بات کہ اس طرح کے بہت سے مواقع پر میں گاڑی میں ہی بیٹھ کر ان کی واپسی کا انتظار کرتا ہوں، حالانکہ اس طرح کی صورت حال میں ہمیشہ مجھے جھے سات برس پہلے کا ایک واقعہ یا دآ جاتا ہے جب ہم دو دوست شاپنگ کے لئے چلے گئے تھے اور ایک خاتون کو گاڑی میں اکیلا چھوڑ گئے تھے،یہ تب کی بات ہے جب میں،قیوم طاہر اور فرحین چودھری ”سارک صوفی کانفرنس“ میں شرکت کے لئے انڈیا گئے تھے، یہ کانفرنس ہر سال انڈیا کے کسی بڑے شہر میں ہوتی ہے، اْس برس یہ کانفرنس آگرہ میں ہوئی تھے،کانفرنس کے بعد ہم آگرہ سے دہلی آ گئے تھے،انڈیا کے جس بھی شہر میں کسی کانفرنس یا سیمینار کے لئے جانا ہوتا ہے تو چونکہ وہاگہ کے راستے ہم داخل ہوتے ہیں تو پہلا پڑاؤ امرت سر اور پھر وہاں سے ٹرین میں دہلی جا کر اگر کانفرنس میں ایک دو دن باقی ہوں تو رک جاتے ہیں بصورت دیگر ہم پاکستان واپس آتے ہوئے دو ایک دن دہلی میں لازما ًگزارتے ہیں، یوں تو دہلی کا ایک ایک کوچہ اور علاقہ تاریخ کے کئی ادوارکی کہانیاں سنانے کو بے قرار نظر آتا ہے لیکن بستی نظام الدینؒ جانا ہماری پہلی ترجیح اس لئے ہوتی ہے کہ اس بستی میں نظام الدین اولیاؒ، امیر خسرو، مرزا غالبؔ اور حسن ؔنظامی سمیت کئی ایسے بڑے لوگ آسودہئ خاک ہیں جن کا نام لیتے ہوئے بھی دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونا شروع ہو جاتی ہیں پھر بستی کے بیچوں بیچ خسرو کا عرس محل ہے’جہاں ہرروز کوئی نہ کوئی ادبی بیٹھک یا مشاعرہ ہو رہا ہو تا ہے اسی عرس محل میں میری پہلی اور آخری ملاقا ت قراۃالعین حیدر (عینی آپا) سے ہوئی تھی‘ اور بستی کے شروع میں غالب لائبریری بھی ہے جہاں آپ غالب کی عہد میں سانس لینے لگتے ہیں، آگرہ کانفرنس کے
 لئے ہمیں دہلی رکنے کا موقع نہ ملا اور سیدھا آگرہ پہنچے اور جس صبح ہم ساڑھے نو بجے ایک طویل سفر کے بعد آگرہ پہنچے تھے تو اس دن صبح دس بجے کانفرنس کا افتتاح اجلاس تھا،گویا ”اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے“ غنیمت تھا کہ جس پنج ستاری ہوٹل میں ہمارا قیام تھا کانفرنس بھی اس ہوٹل میں تھا۔ طے ہم نے یہی کیا کہ واپسی پر دہلی رکیں گے سو یہی کیا، بستی نظام الدین،بختیار کاکی ؒ کے دربار اور اردو بازار کے بعدقیوم طاہر کو کچھ شاپنگ کرنا تھی اس لئے چاندنی چوک کا رخ کیا۔ ہم نے ایک گاڑی ہائر کی ہوئی تھی اور بازار چاندنی چوک کی پارکنگ سے چند منٹ دور تھا اب شام ہو چکی تھی ہم گاڑی سے اترے مگر فرحین چودھری نے کہا میں بہت تھک گئی ہوں۔میں گاڑی میں ریسٹ کر لیتی ہوں مگر پلیز آدھ گھنٹہ سے زیادہ مت لگانا۔ قیوم طاہر نے کہا بس ایک ہی دکان پر جانا ہے اور آدھ گھنٹہ سے بھی پہلے آ جائیں گے۔ مگر قیوم طاہر کے بیٹے کی شادی کچھ دنوں تک ہو نے والی تھی سو اس کی شاپنگ طول پکڑ گئی،پسند کرنے اور مول تول میں یاد ہی نہیں رہا کہ ہم پاکستان میں نہیں دلّی میں ہیں اور دیار غیر میں ایک اکیلی خاتون کو ڈرائیور کے آسرے پر گاڑی میں اکیلا چھوڑ کر اسے آدھ گھنٹہ کا کہہ کر آئے ہوئے ہیں اور مغرب کے گئے ہوئے عشا کے بھی بہت بعد میں لوٹے، دہلی شہر کی اجنبی اور پر اسرار رات اور دیار غیر کی غیر محفوظ پارکنگ میں ایک غیر ڈرائیور کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی اکیلی خاتون کتنی بھی بہادر کیوں نہ ہو۔ اللہ معاف کرے اب بھی سوچتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ’مجھے یہ واقعہ ہر بار یاد آتا ہے جب بھی گاڑی میں بیٹھ کر مجھے کسی ؎کا انتظار کرنا پڑتا 
ہے،لیکن میں جس طرح دوستوں کے ساتھ تین دہائیاں پہلے گھومتا تھا وہ سلسلہ دو ایک دہائیوں سے منقطع تھا، مجھے دوست عزیز سید عاقل شاہ سے ملنے ان کے ہوٹل تک جانا تھا، میرے پاس گاڑی نہیں تھی اور میں نے عاقل شاہ کی پیشکش کے لئے معذرت کی اور پیدل ہی پشاور صدر گھومنے چل پڑا، کل کا وہی رونق میلہ اب بھی تھا فٹ پاتھ جو تھوڑے بہت تہہ بازاریوں سے بچے ہوئے تھے ان پر رک رک کر چلنا پڑ رہا تھا ’آنکھوں میں گزرے ہوئے مہ و سال کی گرد اڑہی تھی، بچھڑے ہوئے کچھ مہربان چہرے یاد آ رہے تھے اور میں خود کو بہت اجنبی محسوس کر رہا تھا، دل بھر آیا تھا اچانک ایسا لگا جیسے اس بھیڑ میں سے کسی نے میرا نام پکارا ہو، میں اسے واہمہ ہی سمجھ کر رکا نہیں لیکن پھر کسی نے میرے سامنے آکر مجھے روکا اور کہا میں نے کتنی آوازیں دیں آؔپ رکے نہیں، یہ دوست عزیز سفیر خلیل تھا،ادبی محافل میں روز کے ملنے والے سفیر خلیل سے ٹھیک اتنے ہی عرصہ بعد ملاقات ہوئی جتنا عرصہ پشاور صدر کی یاترا کو ہو چکا تھا۔ سفیر خلیل مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اپنی شاپ ’پاشا فوڈز‘ پر لے آیا، اور پھر جیسے بیتا ہوا سارا وقت چپکے سے آکر ہمیں ساتھ بیٹھ گیا، وہ بتا رہا تھا کہ ہماری شاموں کی گواہی دینے والے وہ سارے ٹھیے اب قصہ ئ پارینہ بن چکے ہیں، سلور سٹار، خیبر کیفے، علیگ اور گارڈینا کچھ بھی تو اب باقی نہیں رہا، ان کی جگہ اب چکا چوند روشنیوں والے کپڑے اور زیوارات کی دکانیں بن گئیں ہیں کتنی ہی دیر ہم پروفیسر طہ ٰ خان، روشن نگینوی اور قاضی سرور سمیت کتنے ہی شفیق بزرگوں کو یاد کرتے رہے، میں نے جب سفیر خلیل سے ادبی محفل سے غیر حاضری کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ جب سارے چائے خانے اجڑ گئے تو میں نے یہ ان کی یاد میں یہ چھوٹی سی بیٹھک بنا لی جہاں کوئی نہ کوئی پرانا دوست آپ کی طرح بھٹکتا ہو ا آ جاتا ہے اور ہم اس سنہرے دور کو یاد کر کے دل بہلا لیتے ہیں،مگر میں نے سفیر خلیل کو دیکھا تو افتخار عارف کا شعر اس کی بھیگی آنکھوں سے چھلک رہا تھا-
 کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے
 بس ایک رزق کا منظر نظر میں رکھا جائے لٹ گئی شہر ِ حوادث میں متاع ِ الفاظ
 اب جو کہنا ہو تو کیسے کوئی نوحہ کہیے
داغستان کے شاعر رسول حمزہ نے کہیں کہا ہے کہ ”جلد بازی سے کام مت لو اور جان رکھو کہ تیز رفتار چنچل اور بہت شور مچانے والا پہاڑی چشمہ کبھی سمندر تک نہیں پہنچ پاتا بلکہ اپنے مقابلے میں کہیں زیادہ خاموش اور پر سکون اور نرم رو دریا میں جذب ہو جاتا ہے،“ لیکن ہماری آوازیں شور مچانے لگی ہیں اور ہماری سماعتیں اب الفاظ کو سننے اور جذب کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھی ہیں، ہم کسی کو بھی سننے کی بجائے اپنے بولنے کی باری کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں، گھروں کے اندر ہمیں اپنے اپنے سیل فونز نے یرغمال بنایا ہوا ہے، اور ہم اس چھوٹی سی ڈیوائس کے اتنے عادی بلکہ اس کا شکار بن چکے ہیں کہ ہمیں یاد ہی نہیں رہا کہ اس کے منفی اثرات ہمارے بچوں پر کس طور مرتب ہوں گے۔ اور پھر وہی ہوا کہ کسی بھی گھر میں سال سے بھی کم عمر بچوں کا زیادہ وقت موبائل فون سے کھیلتے ہی گزرنا شروع ہو گیا،اس کا آغاز مجھے یاد ہے کہ ساٹھ کی دہائی کے اواخر ہی میں اس وقت شروع ہو چکا تھا جب معروف ادیب قمر علی عباسی اور ان کی فنکارہ بیگم نیلوفر عباسی نے بچوں کے لئے کیسٹ کہانی کا سلسلہ شروع کیا تھا، یہ ٹیپ ریکارڈر کا زمانہ تھا اور آڈیو کیسٹ میں مدھر آوازیں بچوں کی کہانیاں سناتی تھیں۔ گھر کے کاموں میں مصروف مائیں بچوں کے پاس ٹیپ ریکارڈر رکھ دیتی تھیں اور یوں بچے بہل جاتے تھے۔اور مائیں، نانیاں اور دادیاں فارغ ہو گئیں اور بچے ہر کہانی کی اس ”سگنیچرٹیون“ سے محروم ہو گئے یہ کہانیاں تمثیلی انداز میں بچوں کو آنے والی زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی تہذیب و تربیت سے آگاہ اور تیار کرتیں لیکن یہ سب کل کی باتیں ہیں

اب بچے سیل فونز پر طرح طرح کی وڈیوز دیکھ کر وقت سے پہلے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں اور بسا اوقات تین چار سال کے کم عمر بچے ایسی ایسی بات کر جاتے ہیں کہ بڑے سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، یہاں تک بھی بات ٹھیک تھی مگر اب اب بچوں کی سماعتیں محض وہ آوازیں سننے کی عادی ہیں جو ان وڈیوز سے ابھرتی ہیں،نہیں تو آپ کسی موبائل فون یا ٹیبلیٹ بدست بچے کو پکار کر دیکھیں مجال ہے کہ دس بار پکارنے پر بھی وہ آپ کو جواب دے، پہلے پہل ہم ان سے دور ہوئے اب وہ اس کی ہمیں سزا دینے کا تہیہ کر چکے ہیں، فارسی خواں کہتے ہیں ”خود کردہ را علاجے نیست“ اور یہی بچے ذرا ذرا سی بات پر چیخنا شروع کر دیتے ہیں، والدین کو جذباتی بلیک میل کرنا شروع کر دیتے ہیں، اور توجہ حاصل کرنے کے لئے بنا آنسوؤں کے رونا شروع کر دیتے ہیں، بھاگ کر قریب جاؤ تو معلوم ہو تا ہے کہ ”ڈرامہ کر رہا ہے ’‘ اور یہی نسل اب جوان ہو چکی ہے اور اب وہ اپنی مرضی کی زندگی جینا چاہتی ہے۔ ایک طرح سے من مانی کرنا چاہتی ہے کیونکہ ہم نے انہیں کبھی اپنے قریب نہیں رکھا تھا، وہ اپنے طور پر جیئے،اب انہیں خاموشی ایک آنکھ نہیں بھاتی ان کی سب سے بڑی تفریح شور بن گئی ہے، موٹر سائیکلوں سے سائیلنسر ہٹا دئیے گئے ہیں، ہمہ وقت انہیں ایک ہنگامہ چاہئے اول اول یہ ہنگامہ یہ شور و غوغا چودہ اگست کے تہواروں یا پارکوں میں عید میلوں میں نظر آتا اب عام دنوں میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارے چاروں طرف شور بڑھ گیا ہے بڑھتا چلا جارہا ہے اور اب تو یوں لگتا ہے جیسے اس سماج میں چپ رہنے کی آزادی کسی کو بھی میسر نہیں رہی کیونکہ ہر شخص بولنا چاہتا ہے اور دلیل کمزور ہو تو مجبورا آواز کو بلند بھی کرنا پڑتا ہے،اور خدا لگتی با ت یہی ہے کہ دلیل کسی کے پاس سرے سے ہے ہی نہیں تو مجبورا َ ہر شخص کو اب چیخ چیخ کر، ہی بولنا پڑ تا ہے سو ہر شخص لگا تار بولتا چلا جاتا ہے، لگتا ہے شاید اب ہم سب نے باقی صدیقی کی نصیحت پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے اور ایسا ہے تو کیپ اٹ اپ دوسرو 
 باقی ؔ جو چپ رہو گے تو اْ ٹھیں گی انگلیاں 
 ہے بو لنا بھی رسم ِ جہاں بولتے رہو  

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *