ہے بو لنا بھی رسم ِ جہاں بولتے رہو

ہے بو لنا بھی رسم ِ جہاں بولتے رہو
شور بہت بڑھ گیا ہے اور اب چپ رہنے کی آزادی کسی کو میسر نہیں ہے ہر شخص بولنا چاہتا ہے اور دلیل کمزور ہو تو مجبورا آواز کو بلند بھی کرنا پڑتا ہے ایک زمانہ تھا کہ نرم لہجے میں بات کرنے کا رواج تھا‘ رواج کیا تھا ”حکم“ تھا، اس معاشرے میں کبھی کبھار سانپ اور نیولے کی جنگ کا جھانسہ دے کر دوائیں بیچنے والے مجمع باز جسے ہم مداری کہتے تھے کی آواز ہی بلند بانگ ہو تی تھی، لیکن اسے معلوم تھا کہ بات کیا کرنی ہے کتنی کرنی اور کس وقت ختم کرنی ہے اور کس طرح کچھ اور کرتب دیکھنے کے منتظر مجمع کو برخاست کرنا ہے۔ اس کا کہا ہوا ایک ایک لفظ ہمیں اب بھی یاد ہے کہ وہ لوگوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اچھے لفظوں کا انتخاب کرتا تھا، ”مہربان،قدر دان سے گفتگو آغاز کیا کرتا تھا،مجھے یاد ہے ہمارے پرائمری سکول کے داخلی دروازے کے بالکل سامنے والی دیوار پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا،”پہلے تولو پھر بولو“ پہلے پہل تو معلوم نہ تھا کیا لکھا ہے پھر سال بھر بعد جب حروف جوڑ کر اور ہجے کر کے پڑھ لیا تو پھر ایک عرصہ تک یہ علم نہ ہوسکا کہ اس کا مفہوم کیا ہے اور جب ہمیں اس مختصر سے قول کی سمجھ آئی تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور ہم تولے بغیر بولنے کے عادی ہو چکے تھے۔ اور پھر ساری عمر یہ قول تب تب ہمارا منہ چڑاتا رہتا، جب جب ہم اپنے ہی بولے ہوئے الفاظ کی وجہ سے کٹھن حالات کا شکار ہوتے رہے۔ اور اب تو یہ عالم ہے کہ جیسے ہمارے گرد و پیش سے ”نپی تلی“ گفتگو کا چلن ہی متروک ہو گیا، اور لفظ،اچھے لفظ، مہربان لفظ اور دلوں پر ٹھنڈے پھاہے رکھنے والے محبت کے سارے ا لفاظ ہم سے روٹھ گئے گویا ہم اب مصطفےٰ زیدی کے ہم زبان ہو گئے تھے۔
لٹ گئی شہر ِ حوادث میں متاع ِ الفاظ
اب جو کہنا ہو تو کیسے کوئی نوحہ کہیے
داغستان کے شاعر رسول حمزہ نے کہیں کہا ہے کہ ”جلد بازی سے کام مت لو اور جان رکھو کہ تیز رفتار چنچل اور بہت شور مچانے والا پہاڑی چشمہ کبھی سمندر تک نہیں پہنچ پاتا بلکہ اپنے مقابلے میں کہیں زیادہ خاموش اور پر سکون اور نرم رو دریا میں جذب ہو جاتا ہے،“ لیکن ہماری آوازیں شور مچانے لگی ہیں اور ہماری سماعتیں اب الفاظ کو سننے اور جذب کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھی ہیں، ہم کسی کو بھی سننے کی بجائے اپنے بولنے کی باری کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں، گھروں کے اندر ہمیں اپنے اپنے سیل فونز نے یرغمال بنایا ہوا ہے، اور ہم اس چھوٹی سی ڈیوائس کے اتنے عادی بلکہ اس کا شکار بن چکے ہیں کہ ہمیں یاد ہی نہیں رہا کہ اس کے منفی اثرات ہمارے بچوں پر کس طور مرتب ہوں گے۔ اور پھر وہی ہوا کہ کسی بھی گھر میں سال سے بھی کم عمر بچوں کا زیادہ وقت موبائل فون سے کھیلتے ہی گزرنا شروع ہو گیا،اس کا آغاز مجھے یاد ہے کہ ساٹھ کی دہائی کے اواخر ہی میں اس وقت شروع ہو چکا تھا جب معروف ادیب قمر علی عباسی اور ان کی فنکارہ بیگم نیلوفر عباسی نے بچوں کے لئے کیسٹ کہانی کا سلسلہ شروع کیا تھا، یہ ٹیپ ریکارڈر کا زمانہ تھا اور آڈیو کیسٹ میں مدھر آوازیں بچوں کی کہانیاں سناتی تھیں۔ گھر کے کاموں میں مصروف مائیں بچوں کے پاس ٹیپ ریکارڈر رکھ دیتی تھیں اور یوں بچے بہل جاتے تھے۔اور مائیں، نانیاں اور دادیاں فارغ ہو گئیں اور بچے ہر کہانی کی اس ”سگنیچرٹیون“ سے محروم ہو گئے یہ کہانیاں تمثیلی انداز میں بچوں کو آنے والی زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی تہذیب و تربیت سے آگاہ اور تیار کرتیں لیکن یہ سب کل کی باتیں ہیں